SAKINA JAN - FARHAN ALI WARIS - MUHARRAM 1443 - 2021
SAKINA JAN - FARHAN ALI WARIS - MUHARRAM 1443 - 2021
نوحہ بی بی سکینہ (س)
،
سکینہ جان بابا قربان ،
قافلہ لوٹ گیا
برسرِ کربلا
مجھکو مارا گیا
تجھ کو پیاسا رکھا
نیزے پہ ہم چلے
تو چلی خاک پہ
پاوں تیرے جلے
ہم تڑپتے رہے
سکینہ میری بچی اے بابا کی جاں
تجھ سے بیٹی جدا میں ہوا تھا کہاں
تو تھی جہاں میں تھا وہاں
میری بچی بابا قربان
میری بچی بابا قربان
میری بچی بابا قربان
رونا نہ یوں رونا نہ یوں
میں ساتھ ہوں
شہِہ مظلوم کہتے تھے سکینہ سے اے بی بی
شہِہ مظلوم کہتے تھے سکینہ سے اے بی بی
ہماری اور تمھاری داستاں ہے ایک جیسی
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
تیری میری مصیبت ہے سکینہ ایک ہی جیسی
چھری گردن پہ میرے تھی تیری گردن میں ہے رسی
میں نیزے پر چلا ہوں اور تو کاٹوں پہ اے بی بی
میرے سر سے لہوں جاری تیرے کانوں سے خوں جاری
تماچے تیرے چہرے پر لگائے جارہے ہیں
یہاں نیزے پہ ہم پتھر ہی کھاے جا رہے ہے
ہاۓ ،
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(پہلا فارسی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
———————(دوسرا فارسی)————————
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
لعین نے کیھچ کر چھینی جو تجھ سے بالییاں تیری
ہوا کانوں سے خوں جاری صدا عموں کو تو نے دی
تیری غربت میرے جیسی میری حالت تیرے جیسی
انگھوٹی کے لئے کاٹی ستمگر نے میری اُنگلی
یہاں بیٹی تجھے ناقوں سے گروایا گیا ہے
میرے لاشے پہ وہاں گھوڑوں کو دوڑایا گیا ہے
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (تیسرا فارسی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
تو چادر کو ترستی تھی کفن کو میں ترستا تھا
تیری چادر بنی مٹی بنی مٹی کفن میرا
سِنا سے تیرے ناقوں کا بڑا تھا فاصلہ دوکھیاں
تو بابا کو بلاتی تھی بُلاتے تھےتجھے بابا
عزِیت کا سفر تھا دشت سے کوفے کے در تک
ٹرپتے باپ بیٹی آگئے شیریں کے گھر تک
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
ستم تجھ پر بھی ڈھاتے ہیں ستم مجھ پر بھی ڈھاتے ہیں
یتِیما تجھ کو کہتے ہیں مجھے باغی بلاتے ہیں
سنا کے پاس سے ظالم جو ناقے لے کے جاتے ہیں
تجھے بھی آزماتے ہیں مجھے بھی آزماتے ہیں
بہت نزدیک ہوکر بھی عجب سی دوریاں ہیں
بڑی مجبوریاں ہیں یہ بڑی مجبوریاں ہیں
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
تماچے تو نے کھائے ہیں، پتھر کھاۓ میں نے بھی
تیرے روکسار ہے نیلے میرا چہرا ہوا زخمی
کئ دِن کا ہو میں پیاسہ کئ دِن کی ہے تو پیاسی
گلا ہے خُشک تیرا بھی رگّے میری بھی ہے سوکھی
ہمارے درد کو سمجھے کوئ اے کاش بی بی
میں لاشہ ہو کہ زندہ ہوں تو زندہ لاش بی بی
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
اسیرِ ظُلم ہے تو بھی اسیرِ ظُلم ہو میں بھی
میں ہو تنہا سرِ مقتل تو ہے زندان میں قیدی
یہاں زندان کی گرمی وہاں میدان کی گرمی
یہاں سوئی نہی تو بھی وہاں سویا نہی میں بھی
کبھی تو چین سے سینے پہ سوجاتی تھی میرے
میرا سر آج ہے اے لاڈلی سینے پہ تیرے
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
گئے فرحان اور مظہر یہ منظر شام میں دیکھا
کہاں بیٹی کی تُربت ہے کہاں بابا کا ہے روضہ
ہر ایک زائر لرز جائے اگر یہ سوچلے جملہ
کے شاموں کربلا کے درمیاں ہے فاصلہ کتنا
سکینہ اور بابا میں جدائی آج بھی ہے
لبِ شبیر پہ لوگوں دوہائی آج بھی ہے
ہائے
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان ، سکینہ جان
بابا قربان
سکینہ جان بابا قربان ، سکینہ جان بابا قربان
No comments: